سلمان عطا
انسان نے پچھلے دو سو سال میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ ترقی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ لیکن کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ موجودہ سائنسی ایجادات میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں بنتا؟ اگر دنیا میں سائنسی ایجادات کی رفتار کا پاکستان سے تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بہت پیچھے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالسلام اور چند دیگر ناموں کے علاوہ عالم گیر شہرت حاصل کرنے والے سائنس دان نہیں ہیں ۔ ملک میں حقیقی سائنسی بنیادوں پر کام بہت کم ہو رہا ہے ۔ 2016 ء کے عالمی تخلیقی اشاریہ یا گلوبل کریئٹویٹی انڈیکس کی درجہ بندی میں پاکستان 128 ممالک میں سے 119 ویں نمبر پر ہے یعنی صرف 9 ممالک پاکستان سے بھی کم درجہ پر ہیں ۔ ملک میں موجود تعلیمی اداروں کی کُل تعداد تقریباً دو لاکھ ہے ۔
اگرچہ آدھے صرف پرائمری تک تعلیم فراہم کرتے ہیں ۔ پاکستان میں سالانہ لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ طلبا و طالبات یونیورسٹی سے گریجوایشن کرتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بے پناہ وسائل کا مالک یہ ملک تخلیقی اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہے؟ درحقیقت تخلیقی سرگرمیاں ان معاشروں میں پروان چڑھتی ہیں کہ جہاں آزادانہ بحث و مباحثہ، رواداری اور تنقیدی فکر کا رواج عام ہو ۔ تنقیدی فکر پر دی گئی تربیت انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے ۔ تنقیدی فکر معقولیت اور غور و فکر کی بنیاد پر کسی بات کو پرکھنے یا مطلوبہ نتائج تک پہنچنے کا نام ہے ۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں معلومات کو ماہرانہ طریقے سے سمجھنے، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کے بعد با معنی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی تعلیمی ماحول اس وقت مغرب میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ الیکٹرونکس، میڈیکل، خلائی سائنس غرض ہر میدان میں مغرب کا ڈنکا بجتا ہے ۔ تنقیدی فکر نا صرف سائنس و ٹیکنالوجی بلکہ زندگی کے باقی شعبہ ہائے جات میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا پر بے تحاشہ اور بعض اوقات متضاد معلومات و نظریات نے تنقیدی فکر کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ تنقیدی فکر کی تربیت تعلیمی اداروں میں کامیابی سے دی جا سکتی ہے ۔ درحقیقت تنقیدی فکر ہی تعلیمی نظام کا مطلوبہ نتیجہ ہوتا ہے اور یہ معلم کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ طالب علموں کو تنقیدی فکر کی صحیح طرح سے تربیت دے ۔
اگر معلم خود ہی اس میں مہارت نہ رکھتا ہو تو اس سے کوئی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ یہی صورت حال پاکستان میں ہے کہ جہاں تعلیم کا مقصد زیادہ تر حافظے کا امتحان ہوتا ہے ۔ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں عام طور پر ایسے طالب علم ہی کامیاب رہتے ہیں جو اچھی طرح سے رٹا لگاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں تخلیق و جدت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ۔ 1920ء کے لگ بھگ برٹرینڈ رسل نے کچھ ایسے ہی حالات کے تناظر میں کہا تھا کہ مروجہ تعلیم ذہانت اور آزادی رائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک بن چکا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی ایسا نہیں ہے کہ جس سے کچھ اچھے نتائج کی امید رکھی جا سکتی ہو ۔ ملک کی یونیورسٹیوں میں زیادہ تر زور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالبہ کو تحقیق کرنے کے طریقہ کار (مثلاً مواد اکھٹا کرنا، سروے کرنا وغیرہ) یاد کروانے پر دیا جاتا ہے حالانکہ اس سے کہیں زیادہ ان کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ایک محقق یا سائنسدان سوچتا کیسے ہے ۔ نیوٹن ، آئن سٹائن ، ڈارون ، نیل بوہر جیسے لوگوں نے اپنی منفرد اور سائنسی سوچ کی بنیاد ہی پر شہرت پائی ۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں اساتذہ اور طالبہ کو تنقیدی فکر سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ملک میں جب تک تعلیمی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے تنقیدی فکر اور سازگار تعلیمی ماحول مہیا نہیں کیا جائے گا ، معاشی و سائنسی پسماندگی ہمارا مقدر بنی رہے گی ۔
( تئیس اپریل کو دنیا نیوز میں شائع ہوا )
No comments:
Post a Comment