Saturday, 22 April 2017

پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2017-04-23&edition=LHR&id=3061925_75102296#.WPwhddM4HfY.facebook


سلمان عطا
انسان نے پچھلے دو سو سال میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جو ترقی کی ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ترقی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ لیکن کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ موجودہ سائنسی ایجادات میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں بنتا؟ اگر دنیا میں سائنسی ایجادات کی رفتار کا پاکستان سے تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بہت پیچھے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام اور چند دیگر ناموں کے علاوہ عالم گیر شہرت حاصل کرنے والے سائنس دان نہیں ہیں۔ملک میں حقیقی سائنسی بنیادوں پر کام بہت کم ہو رہا ہے۔ 2016 ء کے عالمی تخلیقی اشاریہ یا گلوبل کریئٹویٹی انڈیکس کی درجہ بندی میں پاکستان 128 ممالک میں سے 119 ویں نمبر پر ہے یعنی صرف 9 ممالک پاکستان سے بھی کم درجہ پر ہیں۔ ملک میں موجود تعلیمی اداروں کی کُل تعداد تقریباً دو لاکھ ہے۔ اگرچہ آدھے صرف پرائمری تک تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ طلبا و طالبات یونیورسٹی سے گریجویشن کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بے پناہ وسائل کا مالک یہ ملک تخلیقی اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہے؟ درحقیقت تخلیقی سرگرمیاں ان معاشروں میں پروان چڑھتی ہیں کہ جہاں آزادانہ بحث و مباحثہ، رواداری اور تنقیدی فکر کا رواج عام ہو۔تنقیدی فکر پر دی گئی تربیت انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے۔ تنقیدی فکر معقولیت اور غور و فکر کی بنیاد پر کسی بات کو پرکھنے یا مطلوبہ نتائج تک پہنچنے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں معلومات کو ماہرانہ طریقے سے سمجھنے، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کے بعد با معنی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی تعلیمی ماحول اس وقت مغرب میں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ الیکٹرونکس، میڈیکل، خلائی سائنس غرض ہر میدان میں مغرب کا ڈنکا بجتا ہے۔ تنقیدی فکر نا صرف سائنس و ٹیکنالوجی بلکہ زندگی کے باقی شعبہ ہائے جات میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا پر بے تحاشہ اور بعض اوقات متضاد معلومات و نظریات نے تنقیدی فکر کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تنقیدی فکر کی تربیت تعلیمی اداروں میں کامیابی سے دی جا سکتی ہے۔ درحقیقت تنقیدی فکر ہی تعلیمی نظام کا مطلوبہ نتیجہ ہوتا ہے اور یہ معلم کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ طالب علموں کو تنقیدی فکر کی صحیح طرح سے تربیت دے۔ اگر معلم خود ہی اس میں مہارت نہ رکھتا ہو تو اس سے کوئی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ یہی صورت حال پاکستان میں ہے کہ جہاں تعلیم کا مقصد زیادہ ترحافظے کا امتحان ہوتا ہے۔ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں عام طور پر ایسے طالب علم ہی کامیاب رہتے ہیں جو اچھی طرح سے رٹا لگاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں تخلیق و جدت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ 1920ء کے لگ بھگ برٹرینڈ رسل نے کچھ ایسے ہی حالات کے تناظر میں کہا تھا کہ مروجہ تعلیم ذہانت اور آزادی رائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی ایسا نہیں ہے کہ جس سے کچھ اچھے نتائج کی امید رکھی جا سکتی ہو۔ملک کی یونیورسٹیوں میں زیادہ تر زور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالبہ کو تحقیق کرنے کے طریقہ کار (مثلاً مواد اکھٹا کرنا، سروے کرنا وغیرہ) یاد کروانے پر دیا جاتا ہے حالانکہ اس سے کہیں زیادہ ان کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ایک محقق یا سائنسدان سوچتا کیسے ہے۔ نیوٹن، آئن سٹائن، ڈارون، نیل بوہر جیسے لوگوں نے اپنی منفرد اور سائنسی سوچ کی بنیاد ہی پر شہرت پائی۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں اساتذہ اور طالبہ کو تنقیدی فکر سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملک میں جب تک تعلیمی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے تنقیدی فکر اور سازگار تعلیمی ماحول مہیا نہیں کیا جائے گا، معاشی و سائنسی پسماندگی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔ ٭…٭…٭

Balanced Diet

سلمان عطا
کسی ایک غذا کو غیر معمولی یا بہترین غذا (سُپر فوڈ) نہیں کہا جا سکتا، سائنسی شواہد اس بات کو رد کرتے ہیں۔ بلا تحقیق معلومات پر یقین کر لینے کی ایک بڑی وجہ متوازن غذا کے بارے میں مناسب جان کاری کا نہ ہونا ہے۔انسان کے جسم کو مناسب حالت میں کام کرنے کیلئے کاربوہائیڈریٹس، چکنائی، پروٹین، وٹامن، فائبر، منرل اور انٹی آکسیڈینٹس کی ایک خاص مقدار ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی جز کی کمی انسان کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک اچھی خوراک ان تمام اجزا کی جسم تک فراہمی یقینی بناتی ہے۔ دراصل غذائی ماہرین نے انسانی غذا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک درجہ بندی یہہو سکتی ہے: 1۔ اناج 2۔ پھل اور سبزیاں 3۔ دودھ اور انڈے 4۔ دالیں اور پھلیاں 5۔ گوشت 6۔گھی اور آئل۔ روزمرہ زندگی میں باقاعدگی سے شامل وہ قدرتی غذا جس میں یہ تمام اقسام مقررہ مقدار میں شامل ہوں بہترین یا متوازن غذا کہلاتی ہے۔ ہر گروہ کی اپنی اپنی منفرد خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ مخصوص غذائی عناصر ہم تک پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دودھ کیلشیم کا ایک اچھا ذریعہ ہے جبکہ پھل اور سبزیاں فائبر اور مختلف اینٹی آکسیڈنٹس کا بہت اچھا ذریعہ ہیں جو انسانی سیل کی مرمت کرتے ہیں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح مچھلی، سویا بین کے تیل، اخروٹ اور کچھ خاص انڈوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پائے جاتے ہیں جو انسانی دماغ کیلئے بہت ضروری ہیں۔ ایک طرف اگر کسی خوراک میں کچھ عناصر زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف اس میں کچھ عناصر کی کمی بھی ضرورہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دودھ میں آئرن کی مطلوبہ مقدار نہیں پائی جاتی اور سبزیوں میں چکنائی کی تعداد ناکافی ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان کی خوراک مختلف گرہوں پر مشتملہو تاکہ تمام ضروری اجزا مسلسل ملتے رہیں۔ فاسٹ فوڈ میں توانائی زیادہ اور غذائیت بہت کم ہوتی ہے اور یہ غذا موٹاپا اور کینسر کا باعث بن سکتی ہیں اس لئے اپنی خوراک کو جس قدر ممکن ہوسکے قدرتی رکھیں۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ مناسب غذائیت، مناسب مقدار، باقاعدگی اور تنوع ایک بہترین غذا کے سنہری اصول ہیں۔ ٭…٭…٭
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2017-04-16&edition=LHR&id=3046680_96046088

بہترین غذا کے سنہری اصول

سلمان عطا
کسی ایک غذا کو غیر معمولی یا بہترین غذا (سُپر فوڈ) نہیں کہا جا سکتا، سائنسی شواہد اس بات کو رد کرتے ہیں۔ بلا تحقیق معلومات پر یقین کر لینے کی ایک بڑی وجہ متوازن غذا کے بارے میں مناسب جان کاری کا نہ ہونا ہے۔انسان کے جسم کو مناسب حالت میں کام کرنے کیلئے کاربوہائیڈریٹس، چکنائی، پروٹین، وٹامن، فائبر، منرل اور انٹی آکسیڈینٹس کی ایک خاص مقدار ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی جز کی کمی انسان کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک اچھی خوراک ان تمام اجزا کی جسم تک فراہمی یقینی بناتی ہے۔ دراصل غذائی ماہرین نے انسانی غذا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک درجہ بندی یہہو سکتی ہے: 1۔ اناج 2۔ پھل اور سبزیاں 3۔ دودھ اور انڈے 4۔ دالیں اور پھلیاں 5۔ گوشت 6۔گھی اور آئل۔ روزمرہ زندگی میں باقاعدگی سے شامل وہ قدرتی غذا جس میں یہ تمام اقسام مقررہ مقدار میں شامل ہوں بہترین یا متوازن غذا کہلاتی ہے۔ ہر گروہ کی اپنی اپنی منفرد خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ مخصوص غذائی عناصر ہم تک پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دودھ کیلشیم کا ایک اچھا ذریعہ ہے جبکہ پھل اور سبزیاں فائبر اور مختلف اینٹی آکسیڈنٹس کا بہت اچھا ذریعہ ہیں جو انسانی سیل کی مرمت کرتے ہیں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح مچھلی، سویا بین کے تیل، اخروٹ اور کچھ خاص انڈوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پائے جاتے ہیں جو انسانی دماغ کیلئے بہت ضروری ہیں۔ ایک طرف اگر کسی خوراک میں کچھ عناصر زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف اس میں کچھ عناصر کی کمی بھی ضرورہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دودھ میں آئرن کی مطلوبہ مقدار نہیں پائی جاتی اور سبزیوں میں چکنائی کی تعداد ناکافی ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان کی خوراک مختلف گرہوں پر مشتملہو تاکہ تمام ضروری اجزا مسلسل ملتے رہیں۔ فاسٹ فوڈ میں توانائی زیادہ اور غذائیت بہت کم ہوتی ہے اور یہ غذا موٹاپا اور کینسر کا باعث بن سکتی ہیں اس لئے اپنی خوراک کو جس قدر ممکن ہوسکے قدرتی رکھیں۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ مناسب غذائیت، مناسب مقدار، باقاعدگی اور تنوع ایک بہترین غذا کے سنہری اصول ہیں۔ ٭…٭…٭

http://m.dunya.com.pk/index.php/special-feature/2017-04-16/18312

Thursday, 13 April 2017

سگریٹ نوشی ترک کرنا

سلمان عطا
کافی تگ و دو کے باوجود آپ سگریٹ نوشی کا کوئی فائدہ دریافت نہیں کر سکیں گے۔ شروع میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی صورت میں سودمند ہے لیکن جدید تحقیق نے اس خیال کو رد کر دیا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ سگریٹ نوشی بذاتِ خود ذہنی تناؤ کی ایک وجہ ہے۔ اپنے اردگرد کے تمباکو نوش حضرات پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہو سکتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے مسائل میں امراضِ قلب، شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور موٹاپا شامل ہیں۔ تمباکو کے دیگر نقصانات میں کینسر، جگر اور پھیپھڑوں کی بیماریاں، دانتوں کا خراب ہونا اور طرح طرح کے دیگر امراض شامل ہیں۔ پاکستان کے گلی کوچوں، دفتروں اور بازاروں میں آپ کو ہر رنگ و نسل کے سگریٹ نوش حضرات نظر آئیں گے۔ ان میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو اس عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن ایسا کر نہیں پا تے۔ 2008ء میں جریدہ پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک سروے میں یورپ کے پانچ ممالک سے 1750 سگریٹ نوشی کرنے والوں سے انٹرویو کیے گئے جن میں سے 73 فیصد اسے ترک کرنے کے خواہش مند پائے گئے۔ برطانیہ میں سگریٹ نوشی ترک کرنے والوں کی تعداد سگریٹ نوشی کرنے والوں سے بڑھ چکی ہے۔ لیکن پاکستان میں سگریٹ ترک کرنے کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمباکو کے نقصانات پر تو کچھ معلومات دی جاتی ہیں لیکن اس سے چھٹکارا پانے کے طریقوں کے سلسلے میں نہ تو معلومات دستیاب ہیں اور نہ ہی کوئی خاص معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی ترک کرنا اگرچہ اتنا آسان کام نہیں ہے مگر یہ اتنا مشکل بھی نہیں جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ لوگ خاص طور پر اسے ایک مشکل کام سمجھتے ہیں جو پانچ سال سے زائد عرصے سے اس عادت میں مبتلا ہیں حالانکہ پندرہ بیس سال کی مسلسل سگریٹ نوشی کے بعد اسے ترک کرنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔سگریٹ نوشی ترک کرنے کے اہم طریقوں میں یک لخت ترک کرنا، ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کا استعمال، الیکٹرک سگریٹ کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ یک لخت ترک کرنا سب سے بہتر طریقہ ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں پہلی تو سگریٹ ترک کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک مضبوط ارادہ کامیابی کی کنجی ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ خیال ستاتا ہے کہ سگریٹ کے بغیر سیر و تفریح اور اس طرح کے دوسرے مواقع بے مزہ ہو جائیں گے حالانکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری بہت ہی اہم بات یہ جان لینا ہے کہ سگریٹ کی طلب ایک لہر کی طرح ہوتی ہے جو ایک مخصوص دورانیے کے لیے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ شواہد بتاتے ہیں ترک کرنے کے پہلے ہفتے میں یہ طلب تقریباً تین گھنٹے کے بعد ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ تقریباً سات منٹ کا ہوتا ہے۔ سگریٹ ترک کرنے کی کوشش کرنے والے اکثر حضرات انہی سات منٹوں میں ہار مان لیتے ہیں۔ یہ وقت آپ کو مسلسل پیدل چلنے، پھلوں کا جوس پینے اور اپنے آپ کو یہ یاد دلانے میں گزارنا چاہیے کہ میں کسی بھی صورت دوبارہ سگریٹ نہیں پیوں گا یا پیوں گی۔ یہ سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک چلتا ہے اس کے بعد انسانی جسم اپنے آپ کو سگریٹ سے فراہم کردہ نیکوٹین کے بغیر رہنے کا عادی بنا لیتا ہے۔ انسان نے گزشتہ ڈیڑھ لاکھ سال میں سخت ترین ماحولیاتی اور جغرافیائی حالات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے جس سے اس میں ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی زبردست صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے چند ہفتے کی کوشش کوئی معنی نہیں رکھنی چاہیے۔ تمباکو نوشی ترک کرنے کے 24 گھنٹوں کے اندر خون سے نیکوٹین صاف ہو جاتی ہے۔ البتہ پھیپھڑے اور جگر کی درستی آہستہ آہستہ ہونا شروع ہوتی ہے جس میں کئی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔ سگریٹ پینا ترک کیجیے، زندگی جینے کے لیے ہے خوامخواہ کی مصیبتیں گلے میں ڈالنے کے لیے نہیں۔ ٭…٭…٭


Tuesday, 11 April 2017

سگریٹ نوشی کیسے ترک کی جائے

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2017-04-12&edition=LHR&id=3036556_71332389

سلمان عطا
کافی تگ و دو کے باوجود آپ سگریٹ نوشی کا کوئی فائدہ دریافت نہیں کر سکیں گے۔ شروع میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی صورت میں سودمند ہے لیکن جدید تحقیق نے اس خیال کو رد کر دیا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ سگریٹ نوشی بذاتِ خود ذہنی تناؤ کی ایک وجہ ہے۔ اپنے اردگرد کے تمباکو نوش حضرات پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہو سکتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے مسائل میں امراضِ قلب، شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور موٹاپا شامل ہیں۔ تمباکو کے دیگر نقصانات میں کینسر، جگر اور پھیپھڑوں کی بیماریاں، دانتوں کا خراب ہونا اور طرح طرح کے دیگر امراض شامل ہیں۔ پاکستان کے گلی کوچوں، دفتروں اور بازاروں میں آپ کو ہر رنگ و نسل کے سگریٹ نوش حضرات نظر آئیں گے۔ ان میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو اس عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن ایسا کر نہیں پا تے۔ 2008ء میں جریدہ پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک سروے میں یورپ کے پانچ ممالک سے 1750 سگریٹ نوشی کرنے والوں سے انٹرویو کیے گئے جن میں سے 73 فیصد اسے ترک کرنے کے خواہش مند پائے گئے۔ برطانیہ میں سگریٹ نوشی ترک کرنے والوں کی تعداد سگریٹ نوشی کرنے والوں سے بڑھ چکی ہے۔ لیکن پاکستان میں سگریٹ ترک کرنے کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمباکو کے نقصانات پر تو کچھ معلومات دی جاتی ہیں لیکن اس سے چھٹکارا پانے کے طریقوں کے سلسلے میں نہ تو معلومات دستیاب ہیں اور نہ ہی کوئی خاص معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی ترک کرنا اگرچہ اتنا آسان کام نہیں ہے مگر یہ اتنا مشکل بھی نہیں جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ لوگ خاص طور پر اسے ایک مشکل کام سمجھتے ہیں جو پانچ سال سے زائد عرصے سے اس عادت میں مبتلا ہیں حالانکہ پندرہ بیس سال کی مسلسل سگریٹ نوشی کے بعد اسے ترک کرنے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔سگریٹ نوشی ترک کرنے کے اہم طریقوں میں یک لخت ترک کرنا، ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کا استعمال، الیکٹرک سگریٹ کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ یک لخت ترک کرنا سب سے بہتر طریقہ شمار ہوتا ہے طریقہ ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں پہلی تو سگریٹ ترک کرنے کا ارادہ ہے۔ ایک مضبوط ارادہ کامیابی کی کنجی ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ خیال ستاتا ہے کہ سگریٹ کے بغیر سیر و تفریح اور اس طرح کے دوسرے مواقع بے مزہ ہو جائیں گے حالانکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری بہت ہی اہم بات یہ جان لینا ہے کہ سگریٹ کی طلب ایک لہر کی طرح ہوتی ہے جو ایک مخصوص دورانیے کے لیے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ شواہد بتاتے ہیں ترک کرنے کے پہلے ہفتے میں یہ طلب تقریباً تین گھنٹے کے بعد ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ تقریباً سات منٹ کا ہوتا ہے۔ سگریٹ ترک کرنے کی کوشش کرنے والے اکثر حضرات انہی سات منٹوں میں ہار مان لیتے ہیں۔ یہ وقت آپ کو مسلسل پیدل چلنے، پھلوں کا جوس پینے اور اپنے آپ کو یہ یاد دلانے میں گزارنا چاہیے کہ میں کسی بھی صورت دوبارہ سگریٹ نہیں پیوں گا یا پیوں گی۔ یہ سلسلہ تقریباً دو ہفتے تک چلتا ہے اس کے بعد انسانی جسم اپنے آپ کو سگریٹ سے فراہم کردہ نیکوٹین کے بغیر رہنے کا عادی بنا لیتا ہے۔ انسان نے گزشتہ ڈیڑھ لاکھ سال میں سخت ترین ماحولیاتی اور جغرافیائی حالات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے جس سے اس میں ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی زبردست صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے چند ہفتے کی کوشش کوئی معنی نہیں رکھنی چاہیے۔ تمباکو نوشی ترک کرنے کے 24 گھنٹوں کے اندر خون سے نیکوٹین صاف ہو جاتی ہے۔ البتہ پھیپھڑے اور جگر کی درستی آہستہ آہستہ ہونا شروع ہوتی ہے جس میں کئی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔ سگریٹ پینا ترک کیجیے، زندگی جینے کے لیے ہے خوامخواہ کی مصیبتیں گلے میں ڈالنے کے لیے نہیں۔ ٭…٭…٭
 
 

Sunday, 9 April 2017

COMPARATIVE ANALYSIS OF DATE PALM CULTURE IN INDIA AND PAKISTAN


(initially published in AgriHunt  https://agrihunt.com/articles/horti-industry/comparative-analysis-of-date-palm-culture-in-india-and-pakistan/)


COMPARATIVE ANALYSIS OF DATE PALM CULTURE IN INDIA AND PAKISTAN

Salman Ata

Pakistan and India hold a significant position in international Dates market, former as a second largest exporter and later being the largest importer of dates. However, trade between India and Pakistan has been fundamentally influenced by factors that are not purely economic such as war, political relations etc.  Pakistan exports 80,700 tons of Dates to India during the year 2007. On the other hand, India is the largest importer with global market share of about 38%. To decrease the dependence on other countries, India is trying to increase area and production of date palm in some of its regions. As a major exporter of Dates to India, this is of particular interest for Pakistan. Therefore an analysis of development efforts in date palm industry by India is important for Pakistan in order to plan for the future Dates trade with India and other countries.


In India, climate of Gujarat, Rajasthan and some areas of Punjab is suitable for the production of date palm. However, the commercial cultivation of date palm occurs mainly in the western border of India and the coastal belt of Kutch district of Gujarat contributes about ninety percent to the total date production in India. More than 1.5 million date palm trees are present in Kutch, spread widely from Anjar to Mandvi including Mundra and other areas. This seed propagated population represents a huge biodiversity of date palm with fruits of varying qualities. Government initiatives to promote date palm culture especially in Gujarat and Rajasthan states leads to significant increase in area and production of date palm during the last 15 years. In Kutch, for example, the area under cultivation increases from 8,973 ha to 16,000 ha during last ten years. Date Palm Research Centres at Mundra in Kutch, Bikaner and Jodhpur in Rajasthan, Hissar in Haryana and Abohar in Punjab are working for the promotion of date palm in their respective regions. Government of India implements Integrated Development of Date Palm with an outlay of Rs. 50.00 million during the year 2001 and provides 25% assistance for 100 hectares for date palm growers of Gujarat under National Horticulture Mission plan in 2005-06.
At Jaisalmer and Bikaner Districts, a model farm of date palm in 130 hactres has been developed
The Anand Agriculture University (AAU) in Gujarat has standardized date palm micro-propagation on commercial scale. Moreover, a tissue culture laboratory is also developed at Jodhpur, Rajasthan. The tissue culture Date varieties are Barhee, Khunezi, Medjool, Hallawi, Khadrawy, Zahidi and Deglet Noor. A present research in India shows that only Barhee and Hallawi varieties seems to be successful in Rajasthan conditions with an annual yield of about 66 kg and 60 kg per palm respectively. Despite the efforts made by Indian Government, there is still vast area to be focused for the promotion of date palm especially provision of “elite” varieties to growers either through tissue culture or through screening of local cultivars.  
Area and production of date palm in Pakistan and India from 1996 to 2012

Pakistan
India*
Year
Area (ha)
Production (tons)
Area (ha)
Production (tons)
1996
75,530
534,400
14,000
96,444
1997
75,131
537,500
13,900
94,000
1998
75,530
721,630
13,750
94,050
1999
76,930
579,940
13,500
94,050
2000
78,633
612,500
13,450
93,150
2001
78,521
630,281
13,000
93,700
2002
77,910
625,000
13,000
92,250
2003
74,810
630,000
13,500
94,000
2004
81,700
650,000
13,500
98,000
2005
82,000
496,580
13,742
99,000
2006
84,800
426,300
14,000
99,600
2007
90,100
557,500
14,655
99,723
2008
90,717
557,520
15,120
99,880
2009
90,639
531,200
15,900
113,300
2010
90,100
522,200
17,600
113,300
2011
90,100
622,000
17,800
156,661
2012
90,634
524,000
 17,600
120,000
                       *Estimated values
Pakistan is among the top five producers of Dates in the world and produces more than 600,000 metric tons of Dates. Pakistan exported 88,451 tones of dried dates and 4,687 tones of fresh dates and earned $36.03 million during the year 2007-08. Panjgur and Turbat in Balochistan, Khairpur and Sukhur in Sindh, Dera Ismail Khan in Khyber Pakhtunkhwa and Muzafargarh, Dera Ghazi Khan and Jhang in Punjab are leading districts in terms of date palm production. All provinces except Punjab have their own prominent exportable Date varieties. Pakistan has a huge share of 18% in world Date market. India, Bangladesh, USA, Canada, Germany, UK, Denmark and Australia are some important export market for Dates. However, Pakistan receives low prices of its Dates as compared to other export countries like Israel, France and Tunisia because of substandard and lack of value addition. 
In addition to trade perspective, the most important is the context of date palm growers especially the small farmers of both countries. At present the growers of Sindh and Dera Ismail Khan in Pakistan receive an amount of about Rs. 23.00 and Rs. 28.57 per kg as against retail price of about 200 Rs per kg for fresh dates while growers in India fetched an amount of about Rs. 10 per kg from the year 1999 to 2002 and Rs. 20.00 in 2011-12. At harvest season, growers of Pakistan usually use the traditional method of sun drying of dates by placing dates on straw mats in open grounds. This causes contamination and defective texture of the fruit which reduce its trade value.
Pakistan has the potential to provide good quality Dates to India and other countries with different shapes and forms and can compete with other exporting countries. Dried Dates constitute the major volume of Pakistani export. However, export statistics shows that soft Dates fetch higher prices in international market which depicts that there is an opportunity for Pakistan to increase share in global trade of soft Dates. Organic Dates can also be grown easily in Pakistan by following the organic standards. There is a need to focus on post-harvest management and advanced processing in order to produce international standard Dates and Dates by-products. 

کھجور کے درخت کا غذائی تحفظ میں کردار

Date Palm for Food Security and Poverty Reduction

 Salman Ata and Dr. Babar Shahbaz
Department of Agri. Extension, University of Agriculture Faisalabad


The rural areas of Pakistan in general and that of Balochistan, Southern Punjab, and Sindh in particular are among the poorest regions of country and at the bottom of Human Development Index (HDI). These resource-scarce areas share common features of poverty, meager infrastructure, limited livelihood opportunities, fragile eco-system, etc. Being marginal areas the people of these regions have limited livelihoods options. The recent floods have made the situation more critical and there is a serious threat of food insecurity in these areas. In dry and semi-arid regions date palm is one of the important components of farming system but its role in economic sustainability and food security of local population has not yet been fully recognized. As a matter of fact the date palm offers a good opportunity to the poor farmers to leave the vicious cycle of poverty because of its numerous usages (food, fuel, shelter and handicraft) and global market opportunities.
Date palm is one of the oldest cultivated trees in the world. Date seed of about 5000 years old were found in the excavation at Mohenjo Daro. Dates are mentioned in the religious books of Muslims and Christens and are the famous food for Muslims all over the world particularly during the holy month of Ramazan. Dates are instant source of energy and have an important role in human nutrition as they contain a large amount of carbohydrates, salts and minerals, vitamins, fatty acids, amino acids, proteins and dietary fibre. One kilogram of dates provides 3,000 calories while banana, orange, apricot, wheat bread, cooked rice and meat (without fat) give 970, 480, 520, 2,295, 1,800 and 2,245 calories/ kg respectively. Furthermore, the by-products of date palm have numerous usages.  
Major date palm growing areas in Pakistan are Turbat, Makran and Panjgur (Baluchistan), Mazzafargarh, D. G. Khan, Bahawalpur, Multan and Jhang district of Punjab, Khairpur, Mirpur Khas and Sukkur in Sindh and D. I. Khan in the Khyber Pakhtunkhwa Province. Pakistan is among the top producers of dates but only ten percent of total date production is exported and remaining ninety percent is either consumed locally or wasted due to inadequate marketing and storage facilities. Aseel, Begum Jangi, Gulistan, Fasli and Dhaki are most prominent Pakistani date varieties. These varieties can compete with world’s popular date varieties but due to poor market infrastructure, lack of awareness about production technology, poor financial conditions, shortage of storage and processing facilities etc. Pakistani dates are not getting the real value in international markets.
The date palm, being the tree of hot and climate, grows well in harsh climatic conditions. This tree not only provides the food but also a large number of other products which have been extensively used in the rural as well as urban areas of South Punjab and Sindh. The inferior quality dates and date seed, after soaking in water, are fed to animals. The leaves of date palm are used for making huts, mats, manual fans, rugs, bread dishes, baskets, different types of containers for domestic use and also provide packing material for fruits and vegetables. Dried branches are used as sticks, brooms and fuel. Rope and large hats are made from old leaf sheath. Fruit stalk is used as brooms and for kite making, whereas the trunk of date palm is used to make pillars for huts, roofing of small houses and is also utilized for construction of aqueducts and bridges. All remaining parts of date palm are used as a fuel. Most of the products obtained from date palm are prepared by women at their homes in rural areas which provide extra income besides the fruit.

These uses of date palm tree as food, fuel, shelter and in manufacturing of different handicrafts indicate its potential to reduce food insecurity and to ensure livelihoods sustainability in the date palm growing areas. The date palm offers a good food source for the poor as well as for those who consume diets with high fat and low fibre. All three components of food security (food availability, access to food, and effective food utilization) can be achieved by enhancing date cultivation in Pakistan. There is a need to establish well developed date orchards on scientific basis as most of the date cultivation in the region is in scattered pattern with meager government and private sector intervention. The international market for dates is rising and the main exporting countries are striving to increase their share as new markets emerge with trade liberalization under WTO. Some countries have diversified into organic production of dates. For example, Israel and Tunisia export certified organic dates and earn substantial revenues. Pakistan, too, can try out such innovative pathways to boost-up national economy as well as to ensure livelihood and food security of the local date palm growers.

متوازن غذا

دوسرے معاملات کی طرح ہم غذا میں بھی "شارٹ کٹ" کے قائل ہیں اس لئے آئے روز سنا مکی، کلونجی، اجوائن وغیرہ جیسے نسخے سامنے آتے رہتے ہی...